عباس عباس عباس
ساقئ آل عبا، اباالفضل
تشنہ لب کربلا، ابالفضل
چشمہ آب بقا، ابالفضل یا ابالفضل یا ابالفضل
کرب شبیر ع کے چہرے سے مٹانے والے
رنج سے آل محمد ص کو جھڑانے والے
تھام لے ہاتھ پریشان عزاداروں کا
اے سکینہ ع کے لئے بازو کٹانے والے۔
ہم فقیروں کا تمہیں مان بڑھانا ہوگا
معترض ورنہ بہت ہم پہ زمانہ ہوگا
ہر برس تم سے ملاقات کو ہم آتے تھے
اس برس تم کو ہمارے لئے آنا ہوگا
ٹوٹ جائے نہ میری آس اے امید حرم
میرے زخموں کا فقت آپ ہو غازی مرہم
اربعیں پر ہمیں بلوالیں زیارت کے لئے
آپکو پہلو شکستہ کسی بی بی کی قسم
ہم کو دنیا کا طرفدار نہ ہونے دینا
صرف باتوں کا عزادار نہ ہونے دینا
صدقہ شہزادی رقیہ کے بندھے ہاتھوں کا
ہم کو مشکل میں گرفتار نہ ہونے دینا
اس گھڑی نظروں میں عاشور کی روداد آئ
آنسو آنکھوں میں بھرے ہونٹوں پہ فریاد آئ
سامنے پانی تھا اور پی بھی نہیں سکتا تھا
مجھ کو روضے میں تیری پیاس بہت یاد آئ
تم ہو شبیر ع کی بیٹی کا سہارا غازی
بن تمہارے نہ ہوا انکا گذارا غازی ع
شمر نے جب بھی سکینہ ع کو تماچے مارے
اس نے بابا کو نہیں تم کو پکارا غازی ع
اس گھڑی خیمہ سادات میں کہرام ہوا
خوں بھرا جس گھڑی رن سے تیرا پرچم آیا
پیاسی مرجاونگی اب پانی نہیں مانگونگی
توڑ کر کوزے کو معصوم سکینہ ع نے کہا
تو اچھا ہوا بھائ کی نہ غربت دیکھی
تانے دیتا کوئ شاہ ع پہ ہستا تھا کوئ
اپنے بھائ کی مدد کے لئے رن میں آکر
لاش زینب نے اٹھائ ہے علی اکبر ع کی
شاہ نے روکر کہا ابو الفضل
اٹھو میرے با وفا
تنہا ہے بھائ ےتیرا
تنہا ہے بھائ تیرا
آخری لمحوں میں شبیر ع بہت پیاسے تھے
بڑی حسرت سے سوئے نہر نظر کرتے تھے
شمر ہنس ہنس کے لگاتا رہا تیرا ضربیں
اور ہر وار پہ شبیر ع صدا دیتے تھے
میر سجاد بیاں کیسے کرے وہ منظر
شام کی فوج نے جب آنگ لگائ آکر
چھینے آگئے جب سر سے درا زینب کی
اس گھژی کہتی رہی سانئے زہرا رو کر