فاطمہ کی ہے یہ صدا مہدی کر کے نوحہ علی کی غربت پر زخم میرے سبھی شمار کرو بیٹھ کر آج ماں کی تربت پر درد دل کے کرو بیاں آؤغیب سے فاطمہ کی جاں آؤ بین یہ کر ری ہے ماں آؤداغ آنکھوں پہ بہتے اشکوں کے کمسنی میں سفیدی بالوں کی نیل چہرے پہ اک طمانچے کا سرخی ہاتھوں پہ تازیانوں کی دیکھو غربت کے سب نشاں آوبنتِ احمد ص کو بعدِ پیغمبرپرسہ دیتے ہیں شعلے دکھلا کر بابِ عصمت سے شور اٹھتا ہے لوگ دیتے ہیں دھمکیاں آ کر میرا جلتا ہے آشیاں آؤجانِ مادر میری نگاہوں سے گھر کا آنگن دھواں دھواں دیکھولے گئے ہیں علی ع کو پہنا کر کیسے گردن میں ریسماں دیکھو صبر و غیرت کے آسماں آؤدیکھ پہلو شکستہ تھامے ہوئےکیسے دربار ماں تمھاری گئ میری آنکھوں کے سامنے بیٹامیرے حق کی سند بھی پھاڑی گئظلم کی سن لو داستاں آؤہاۓ افسوس اب بھی امت کو قتلِ محسن پہ کچھ ملال نہیںمیری آغوش سے جو چھینا وہ کوئی باغِ فدک کا مال نہیںَہو مرے منتقم کہاں آولوگ ماریں نہ پھر کہیں پتھر قید اب دخترِ حسین نہ ہوروۓ تنہا نہ شام میں زینب سواحجابا کا لب پہ بین نہ ہومیری بیٹی کو دو اماں آؤ