Jibreel aur Karbala Lyrics – Mesum Abbas | New Noha 2020

جب تیسری شعبان کو آیا گُلِ زہرا س
شبیرؑ کو گودی میں محمدﷺ نے اٹھایا
حد درجہ خوشی سے رخِ معصوم کو دیکھا
اتنے میں صدا در پہ یہ جبرئیلؑ کی آئی
یا سیدی قربان دہائی ہے دہائی

کہتے تھے جبرئیلؑ لایا ہوں محضر
یا نبی سلام علیکہ

کہتے تھے جبرئیلؑ لایا ہوں محضر
یا نبی سلام علیکہ

لوح محفوظ سے ایک ایک سطر لایا ہوں
ایک تحریر ہے پر درد مگر لایا ہوں
ایک سفر نامۂ مغمومِ جگر لایا ہوں
دن خوشی کا ہے مگر غم کی خبر لایا ہوں
دل میں خنجر نوحہ زباں پر

سیدی سیدی سیدی سلام علیکہ

ساتھ محضر کے میں وہ خاکِ شفا لایا ہوں
ساری دنیا کے لیے غم کی دوا لایا ہوں
اُم سلمہ کی زعیفی کا عصا لایا ہوں
یعنی رومال میں مقتل ہی چھپا لایا ہوں
اس پہ کریگا خونِ بہتر

سیدی سیدی سیدی سلام علیکہ

سن کہ جبرئیل کی فریاد محمدﷺ نے کہا
کیا ہے محضر میں لکھا
کیا ہے محضر میں لکھا مجھ کو سناؤں تو ذرا
رو کے کہنے لگا جبرئیل میری جان فدا
آپ کے پیارے نواسے کا شہادت نامہ
کربوبلا میں جائے گا دل بر

سیدی سیدی سیدی سلام علیکہ
یا نبی سلام علیکہ

بولے جبرئیل پڑھوں محضرِ غم بادِ سلام
اس میں شامل ہیں شہیدوں کے اسیروں کے بھی نام
اقربا اہلِ حرم چند کنیز اور غلام
کوئی مقتل میں رہے گا
تو کوئی جائے گا شام
کوئی ہے بے سر کوئی کھلے سر

سیدی سیدی سیدی سلام علیکہ

روز جمعہ ہے لکھا اور سن 61 ہجری
آپ کے پیارے نواسے کی شہادت ہو گئی
آپ ہونگے نہ حسنؑ ہوں گے نہ زہرا س و علیؑ
سن کے ہل من کی صدائیں بھی نہ آئے گا کوئی
ہوگا اکیلا نازش حیدرؑ

سیدی سیدی سیدی
جان حسینؑ جان حسینؑ جان حسینؑ

یا نبیﷺ آپ کى اُمّت یہ ستم ڈھائے گی
جب سوئے کربلا شاہ کو بلواۓ گی
آپ کی آل مدینے میں نہ رہ پائے گی
آپ کے بعد یہ دنیا ہی بدل جائے گی
جائیں گے مقتل چھوڑ کے جب گھر

سیدی سیدی سیدی
جان حسینؑ جان حسینؑ جان حسینؑ

جونؑ و حُرؑ اور حبیبؑ ابن مظاہر اسدیؑ
کیسے جانباز وفادار ہیں وحب کلبیؑ
فاسمؑ و اکبرؑ و عباس علمدارِ جریؑ
ہائے اصغرؑ و عونؑ محمدؑ بھی ہے کمسن ہی سہی
شاملِ محضر ہے یہی لشکر

سیدی سیدی سیدی سلام علیکہ

ہاے۔۔۔۔
اب دیکھئے جبرئیلؑ کی آنکھوں سے یہ منظر
عاشور کی وہ صبح اذان علی اکبرؑ
ایک پیاسے کو ہر سمت سے گھیریں ہیں ستمگر
وہ نیزے وہ پیکان وہ تلواریں وہ خنجر
مقتل کے معظن کا وہ لاشہ سر مقتل
پرچی کا نشان سینے میں ایک ٹوٹا ہوا پھل
تلوار سے ایک تربت بے شیر بنانا
تربت میں پھر ایک سویا ہوا چاند چھپانا
پھر کانپتے ہوٹوں سے ذمیں کو یہ بتانا
اصغرؑ تیرا مہماں ہے اسے جھولا جھولانا
پانی جو میسر نہ ہوا ہائے دہائی
اشکوں کی ردا تربت اصغرؑ پر چڑھائی
وہ عصر کا ہنگام گھڑی قتل کی آئی
جب شمر ل نے ایک پیاسے پہ تلوار چلائی
ایک ریت کے ٹیلے پہ گئ زہرا کی جائی
مقتل میں بہن روتی رہی نیزے پہ بھائی
منظر وہ بیاں کیسے کرے میثم و مظہر
بابا سے کہا فاطمہ زہرا س نے یہ رو کر
ارے لٹ جائے گا جب دشت بیاباں میں میرا گھر
روئے گا بھلا کون میرے بچے کو جاکر
بیٹی سے یہ فرمانے لگے احمد مختارﷺ
تاحشر اسے روئینگے دنیا میں عزادار