ہائے زہرا۔۔۔
صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا
صبّت علی الایّام صرن لیالیا
اپنے بابا کی لاڈلی زہرا
چُور زخموں سے ہوگئی زہرا
کوئی آیا نہیں بجھانے کو
جلتا در دیکھتی رہی زہرا
جانے کس طرح مارا ظالم
خاک پر گری زہرا منہ کے بل
تیرے رخ پر نشاں تماچے کا
کاش زینب نہ دیکھتی زہرا
کربلا شام سامرہ مشہد
کتنے حصوں میں بنٹ گئی زہرا
آگ سے جن کے جل گئے دامن
اک سکینہ ہے دوسری زہرا
ہے تصور میں غربتِ حیدر
سانس لیتی ہے آخری زہرا
منہ کے بل گر پڑے علی سن کر
اب جہاں میں نہیں رہی زہرا
رکھ کے میت لحد میں بولے علی
اب وہ زہرا نہیں رہی زہرا
اے تکلمؔ ہےجانے قبر کہاں۔؟
اتنی بیکس ہے آج بھی زہرا