ہائے بابا
ہائے بابا
ہائے بابا
بابا ہائے بابا
کوئی چادر نجف سے لے آو
میرا عباس مر گیا بابا
شرم آتی ہے بنتِ زھرا کو
میری جانب نا دیکھنا بابا
آج کرب و بلا کے مقتل میں قتل بھائی بہن ہوئے دونوں
وہ اُدھر زین سے گِرا تھا اِدھر سر سے میرے گری ردا بابا
مجھ سے اماں نہ پوچھ لیں یہ کہیں تیرے ہوتے یہ کیا ہوا زینب
میرے بھائی پہ چل گئی ہے چھری مجھ پہ خنجر نہیں چلا بابا
ایسا لگتا ہے اس کے جانے سے ایک دیوار ہٹ گئی جیسے
لوٹ لو اب حسین کے خیمے شام والوں میں شور تھا بابا
موت زینب کو کیوں نہیں آئی مر گئے آج میرے سب بھائی
لے چلو مجھ کو بھی وہاں جلدی ہے جہاں میرا با وفا بابا
بات مجھ کو یہی رلاتی ہے اُس کے بچوں سے شرم آتی ہے
کچھ نہ کر پائی آپ کی بیٹی خونِ عباس بہہ گیا بابا
لاش اکبرکی جب اٹھائی تھی سر پہ مرنے ردا سلامت تھی
لاشِ غازی اٹھاؤں میں کیسے میرے سر پر نہیں ردا بابا
قتل کے بعد پھرسے قتل ہوا نہر پر با وفا تڑپنے لگا
میری چادر اٹھا کے نیزے پر شمر ساحل پہ لے گیا بابا
میری بچی یہ مجھ سے کہتی ہے میں بھی غازی پہ جان دے دوں گی
مرنا جائے یہ شام سے پہلے دو سکینہ کو حوصلہ بابا
اے تکلم وہ کہہ رہی ہوگی زائروں پر لگی ہے پابندی
میری ماں انتظار کرتی ہے کون آئے گا کربلا بابا