ھا بین سکینہؑ کا ہے رکنے کو مرا دل
جاتا ہے ردا چھین کے بےشیرؑ کا قاتل
آسان یہ کردیں مرے بھیا مری مشکل
گوہر بھی نہیں چاہیے نہ چاہیے محمل
کر دے جو مرے سر کی ردا میرے حوالے
پھر چاہے سکینہؑ کو وہ لع جتنا ستا لے
خنجر سے گلا شہ کے میرے سامنے کاٹا
پتھر تنِ مظلوم پہ مارے گئے بھیا
زخموں پہ مگر بابا کے اب ریت نہ ڈالے
گوہر میرے چھینے یہ ستم میں نے سہا ہے
خوں میرا ستمگار کے ہاتھوں پہ لگا ہے
بس میرا لہو ہاتھوں سے اپنے وہ ہٹا لے
رہوراوں کو تیار جو کرتے ہیں مسلماں
بھیا یہ ستم دیکھ کے مر جائیں گی اماں
پامالی سے لاشہ علی اصغرؑ کا بچا لے
کرتا ہےدکھی شاہ کی ہمشیر کو جیسے
لہراتا ہے وہ چادرِ تطہیر کو جیسے
نیزے پہ مرے باپ کا سر یوں نہ اچھالے
۔ہم سے سہی جاتی نہیں تاشوں کی اذیت
ہنستے ہیں لعیں دیکھ کے ہم ساروں کی حالت
رستے اے ہمارے یہ تماشائی ھٹا لے
۔تلواروں سے چہرے پہ کئ زخم لگے ہیں
مظلوم کے یہ ہونٹ تو پہلے سے کٹے ہیں
اب بابا کے ہونٹوں سے چھڑی اپنی ہٹا لے
۔میں اپنے لیے چھاؤں تو نہیں مانگتی بھیا
ان شام کی راہوں میں فقط وقت دے اتنا
دامن سے کروں صاف ترے پیروں کے چھالے
اکبر تھیں تڑپ کر یہ سکینہؑ کی صدائیں
رکھتا ہے سرِغازیؑ پہ بہنوں کی ردائیں
یہ چادریں وہ سر سے چچا جاں کے اٹھا لے